مجھے وہ کھیل تماشا دکھائی دیتا ہے
مجھے وہ کھیل تماشا دکھائی دیتا ہے
کہیں بھی کوئی جو ہنستا دکھائی دیتا ہے
کبھی چہکتی تھیں صدیاں یہاں مگر اب تو
اک ایک لمحہ سسکتا دکھائی دیتا ہے
ہر ایک قطرۂ شبنم کو اگتے سورج کی
کرن کرن میں اندھیرا دکھائی دیتا ہے
بجز ہمارے مداوا کوئی نہیں اس کا
وہ ایک دشت جو تنہا دکھائی دیتا ہے
کھڑا ہوا ہوں میں اس بام زیست پر کہ جہاں
ہر ایک درد شناسا دکھائی دیتا ہے
سلگتا دشت ہے وہ اپنی اصل میں لیکن
نگاہ عصر کو دریا دکھائی دیتا ہے
امیر شہر کے دامن کو کیا ہوا ارشدؔ
کہ سامنے سے دریدہ دکھائی دیتا ہے