مجھ دیے پر یہ اک عطا رہی ہے

مجھ دیے پر یہ اک عطا رہی ہے
خود محافظ مری ہوا رہی ہے


لوگ سہمے ہوئے ہیں ہجرت سے
دھول چہروں پہ مسکرا رہی ہے


تیرے ایمان کا خدا حافظ
تو اسے نام سے بلا رہی ہے


شور ہر گام کامیاب رہا
خامشی غم میں مبتلا رہی ہے


وقت پر کار بن گیا سو یہاں
بے بسی دائرے بنا رہی ہے


اس تعلق پہ موت واجب تھی
دوستی درمیان آ رہی ہے


تیرے متلاشیوں کی خیر جنہیں
تیرگی راستے بتا رہی ہے


اس کا رد عمل بھی دھیان میں رکھ
تو اگر مسئلہ اٹھا رہی ہے


ہم غریبوں کی عمر بھر فیصلؔ
پہلی ترجیح بس انا رہی ہے