مدتوں سوچا کیا کہنے کو کچھ
مدتوں سوچا کیا کہنے کو کچھ
پھر بھی مجھ سے کیا بنا کہنے کو کچھ
جس کے منہ میں ہی زباں ہوتی نہ تھی
آج وہ بھی آ گیا کہنے کو کچھ
ضبط نے مجھ کو نہ کچھ کہنے دیا
درد تھا کب سے اٹھا کہنے کو کچھ
جو بھی آیا منہ میں وہ تم کہہ گئے
تم نے اب چھوڑا ہے کیا کہنے کو کچھ
تم نے جب ترک تعلق کر لیا
کیوں بچاتے ہو بھلا کہنے کو کچھ
وہ ملا لیکن میں کیا کہتا اسے
اس کے آگے تھا ہی کیا کہنے کو کچھ
کب تو گزرے گا ادھر سے اے خدا
میں ہوں صدیوں سے کھڑا کہنے کو کچھ
رازؔ اب کیا پوچھتے ہو موت سے
زندگی نے کیا دیا کہنے کو کچھ