اس زمانے کے فریبوں سے بچا کوئی نہ تھا
اس زمانے کے فریبوں سے بچا کوئی نہ تھا
منزلیں تھیں سامنے پر راستہ کوئی نہ تھا
زندگی میں جو ملے اچھے لگے اپنے لگے
میں تو سب کا ہو گیا لیکن مرا کوئی نہ تھا
کس قدر بچ کر چلا میں کتنا آہستہ چلا
مڑ کے جب دیکھا تو اپنا نقش پا کوئی نہ تھا
غم سے سب ہارے ہوئے تھے زندگی کی دوڑ میں
سورما بھی تھے مگر جیتا ہوا کوئی نہ تھا
رات کچھ ایسا لگا جیسے سحر سی ہو گئی
اک دیا بس جل رہا تھا بولتا کوئی نہ تھا
رازؔ تھے احباب اپنے دوست اور محبوب بھی
جو نبھاتا ایک رشتہ درد کا کوئی نہ تھا