محبت روگ ہے جاں کا نہیں اس کی دوا کوئی (ردیف .. ے)

محبت روگ ہے جاں کا نہیں اس کی دوا کوئی
اگر بے موت ہے مرنا تو پھر ہم دور ہی اچھے


زمانہ روکتا ہے جب بغاوت جاگ اٹھتی ہے
مٹا دیتی ہے ہر حد کو تو پھر مجبور ہی اچھے


دمکتا ہجر آنکھوں سے ہے اک مہتاب کی مانند
مسلسل آگ میں جلنا ہے تو بے نور ہی اچھے


دلوں کے قید خانوں میں امنگیں پھڑپھڑاتی ہیں
بہت مشکل ملن ہے پھر تو ہم محصور ہی اچھے


دہائی لاکھ دے لو پر کہیں ملتا نہیں بوسہ
بگولا بے بسی کا ہے تو ہم مغرور ہی اچھے