محبت کا بنا ہے سلسلہ آہستہ آہستہ

محبت کا بنا ہے سلسلہ آہستہ آہستہ
نکلتا جا رہا ہے راستہ آہستہ آہستہ


جمال دست کی کاوش سے بدلا آدمی کا ڈھنگ
چلا سورج کی جانب قافلہ آہستہ آہستہ


وہی کانٹا نئی دنیا کا بھی عنوان ہے شاید
دل منطق میں جو چبھتا رہا آہستہ آہستہ


سنا ہے ہر کس و ناکس کو تیرا غم نہیں پھر بھی
کئے جاتے ہیں ہم بھی حوصلہ آہستہ آہستہ


ابھی عالم کے بازو پر جواں کروٹ ہے شبنم کی
مزاج صبح پہ چڑھتا نشہ آہستہ آہستہ