محبت اور محبت کا شجر باقی رہے گا
محبت اور محبت کا شجر باقی رہے گا
چلے جائیں گے ہم لیکن سفر باقی رہے گا
کسی دستک کی کانوں میں صدا آتی رہے گی
کوئی نقش قدم دہلیز پر باقی رہے گا
ابھی سے کیوں بجھا دیں اپنے دل کی ساری شمعیں
سحر ہونے تک امکان سحر باقی رہے گا
بڑھا آتا ہے سیل بے یقینی ہر طرف سے
تو اس سیلاب میں کیا میرا گھر باقی رہے گا
گرے گا ایک دن سر پر یہ نیلا آسماں بھی
دعاؤں میں بھلا کب تک اثر باقی رہے گا
جو تم چاہو تو اس برتن کو چکنا چور کر دو
مگر پھر بھی نشان کوزہ گر باقی رہے گا
ابھی یہ فیصلہ محفوظ ہے لوح افق پر
کٹے گی کس کی گردن کس کا سر باقی رہے گا
جسے بے مصلحت بے خوف ہو کر میں نے لکھا
وہی بس ایک حرف معتبر باقی رہے گا
ملا ہے ٹوٹ کر جو مدتوں کے بعد اشفاقؔ
اسی سے پھر بچھڑ جانے کا ڈر باقی رہے گا