مٹی کا رنگ روپ بنائے ہوئے ہیں لوگ

مٹی کا رنگ روپ بنائے ہوئے ہیں لوگ
لیکن دلوں میں سنگ چھپائے ہوئے ہیں لوگ


اے ابر حق پسند ذرا جھوم کر برس
چہرے پہ جھوٹی شان جمائے ہوئے ہیں لوگ


چہرے پہ دوستوں کے ریا ناچتی ملی
چاہت کی کیسی دھوپ اگائے ہوئے ہیں لوگ


اس بار کون دام میں آ جائے کیا خبر
معصومیت کا جال بچھائے ہوئے ہیں لوگ


شاید وجود اپنا سلامت نہ رہ سکے
شعلہ نما مزاج بنائے ہوئے ہیں لوگ


دامان اشتیاق کا بچنا محال ہے
اخترؔ ہوس کی آگ جلائے ہوئے ہیں لوگ