ڈھل گئی رات کہکشاں پھر بھی
ڈھل گئی رات کہکشاں پھر بھی
تو نہیں تیری داستاں پھر بھی
عمر گزری ہے دشت و صحرا میں
ہم کو لگتی ہے گلستاں پھر بھی
چلتے چلتے غم فراق کا تیر
روک لیتا ہے یہ کماں پھر بھی
کرب کی رات شعلہ رو تھی بہت
صبح دم غم کی داستاں پھر بھی
اب کوئی آگ بھی نہیں اخترؔ
تپ رہا ہے مرا مکاں پھر بھی