ایک دشمن کو بڑے پیار سے مہمان کیا
ایک دشمن کو بڑے پیار سے مہمان کیا
ہم نے کانٹوں سے سجے طشت کو گلدان کیا
ہم نے سینچا ہے دل و تن کے لہو سے اس کو
ورنہ یہ ایک بیاباں تھا گلستان کیا
پھر بھی ہم تجھ پہ لٹاتے ہیں دل و تن کا لہو
تیرے رشتے نے مگر ہم کو بھی انجان کیا
گاؤں بھی ڈوب گیا موج بلا میں اے دوست
اب کے برسات نے ہر موج کو طوفان کیا
ہم نے انسان کو نسلوں میں یہاں بانٹ دیا
سید و شیخ کیا میر و مغل خان کیا
کس نے تہذیب کی دیوار گرا دی اخترؔ
ایک اک شہر کو کم بخت نے ویران کیا