مٹا کر آج مجھ کو ان کے ارمانوں کی بن آئی
مٹا کر آج مجھ کو ان کے ارمانوں کی بن آئی
ملی سرخی مرے خوں کی تو افسانوں کی بن آئی
ہماری سادہ لوحی نے ہمیں برباد کر ڈالا
دلا کر خوف رہزن کا نگہبانوں کی بن آئی
جدھر دیکھو ادھر ہیں چاک دامانی کے نظارے
گلستاں میں بہار آتے ہی دیوانوں کی بن آئی
محبت کی قسم ایک ایک ذرہ آج دشمن ہے
نظر اپنوں نے کیا پھیری کہ بیگانوں کی بن آئی
کوئی پی کر ہوا بدمست کوئی رہ گیا تشنہ
جو ساقی نے ذرا شہہ دی تو پیمانوں کی بن آئی
نظام نو کی اس جمہور سامانی کا کیا کہنا
رہے ہم خانہ ویراں اور ایوانوں کی بن آئی
کچھ اس انداز سے حالات نے لیں کروٹیں مسلمؔ
بہ نام گنگ و کوثر فتنہ سامانوں کی بن آئی