مثال برگ میں خود کو اڑانا چاہتی ہوں

مثال برگ میں خود کو اڑانا چاہتی ہوں
ہوائے تند پہ مسکن بنانا چاہتی ہوں


وہ جن کی آنکھوں میں ہوتا ہے زندگی میں ملال
اسی قبیلے سے خود کو ملانا چاہتی ہوں


جہاں کے بند ہیں صدیوں سے مجھ پہ دروازے
میں ایک بار اسی گھر میں جانا چاہتی ہوں


ستم شعار کی چوکھٹ پہ عدل کی زنجیر
برائے دادرسی اب ہلانا چاہتی ہوں


نہ جانے کیسے گزاروں گی ہجر کی ساعت
گھڑی کو توڑ کے سب بھول جانا چاہتی ہوں


مسافتوں کو ملے منزل طلب نیناںؔ
وفا کی راہ میں اپنا ٹھکانہ چاہتی ہوں