درد کی نیلی رگیں تہ سے ابھر آتی ہیں

درد کی نیلی رگیں تہ سے ابھر آتی ہیں
یاد کے زخم میں چنگاریاں در آتی ہیں


روز پرچھائیاں یادوں کی پرندے بن کر
گھر کے پچھواڑے کے پیپل پہ اتر آتی ہیں


صورتیں بنتی ہیں چاہت کی یہ کس مٹی سے
بارہا مٹ کے بھی یہ بار دگر آتی ہیں


اودے اودے سے صفورے کی گھنی ٹہنیوں سے
یاد کی سرمئی کرنیں سی گزر آتی ہیں


روز کھڑکی سے قریب آم کے اس پیڑ کے پاس
طوطیاں چونچ میں لے لے کے سحر آتی ہیں


اک وراثت کی طرح گاؤں کی گڑ سی باتیں
گٹھڑیاں باندھ کے اس دل کے نگر آتی ہیں


جتنا بھی چاہوں در یار سے بچ کر نکلوں
تہمتیں اتنی زیادہ مرے سر آتی ہیں


اتنی سی بات پہ اچھی نہیں شوریدہ سری
شام کو چڑیاں تو سب اپنے ہی گھر آتی ہیں


شرم سے الجھے دوپٹے کی جو کھولوں گرہیں
دل کی نیناںؔ رگیں سب کھلتی نظر آتی ہیں