مری خامشی میں بھی اعجاز آئے
مری خامشی میں بھی اعجاز آئے
کہیں سے کوئی مجھ کو آواز آئے
وہ چہرہ نہ جانے کہاں کھو گیا ہے
وہ جس سے لہو میں تگ و تاز آئے
نکالا کسی نے نہ پتھر سے باہر
مرے شہر میں روز بت ساز آئے
اڑے نیلی نیلی رگوں سے نکل کر
مرے درد میں ذوق پرواز آئے
سزا بے گناہی کی میں کاٹتی ہوں
مجھے زندگی کے نہ انداز آئے
محبت اے دیوانی پاگل محبت
ہمیں چھوڑ دے دیکھ ہم باز آئے
مری تشنہ کامی سوالی ہے جس کی
کبھی تو وہ نیناںؔ بصد ناز آئے