آدھی رات کے سپنے شاید جھوٹے تھے

آدھی رات کے سپنے شاید جھوٹے تھے
یا پھر پہلی بار ستارے ٹوٹے تھے


جس دن گھر سے بھاگ کے شہر میں پہنچی تھی
بھاگ بھری کے بھاگ اسی دن پھوٹے تھے


مذہب کی بنیاد پہ کیا تقسیم ہوئی
ہم سایوں نے ہم سایے ہی لوٹے تھے


شوخ نظر کی چٹکی نے نقصان کیا
ہاتھوں سے چائے کے برتن چھوٹے تھے


اوڑھ کے پھرتی تھی جو نیناںؔ ساری رات
اس ریشم کی شال پہ یاد کے بوٹے تھے