مثال عکس کنج ذات سے باہر رہا ہوں میں

مثال عکس کنج ذات سے باہر رہا ہوں میں
کہ آپ اپنے مقابل آئینہ بن کر رہا ہوں میں


عجب موسم تھا جب قربت تری سرمایۂ جاں تھی
وہی موسم ہے اور ترک تعلق کر رہا ہوں میں


تمہاری مشکلیں آساں ہوئی ہیں ڈوبنے والو!
مجھے دیکھو کہ ساری عمر ساحل پر رہا ہوں میں


اسی معمورۂ خوابیدگاں شہر خموشاں میں
نہ جانے زندگی کا سوانگ کب سے بھر رہا ہوں میں


مجھے گزرے ہوئے لمحوں نے اتنے زخم بخشے ہیں
کہ جو گزرا نہیں اس لمحے سے بھی ڈر رہا ہوں میں


شکست اس کو کہوں یا فتح مندی کہہ کے خوش ہو لوں
کہ الطاف رقیباں سے بھی بہرہ ور رہا ہوں میں


در و دیوار و سقف و بام سب اپنی جگہ پر تھے
تو پھر کیا بات تھی جس کے سبب بے گھر رہا ہوں میں


تری خاطر جو میری خود فریب آنکھوں نے دیکھے تھے
انہیں ٹوٹے ہوئے خوابوں کا نوحہ گر رہا ہوں میں


بہت دن بعد کچھ ان دیکھے خواب اترے ہیں آنکھوں میں
سیہ خانے میں کیا کیا شمع روشن کر رہا ہوں میں


عجب احوال ہے دشت طلب میں خود فریبی کا
کہ تھک کر گر چکا ہوں راہ بھی طے کر رہا ہوں میں


یہ لمحہ لمحہ زندہ رہنے کی خواہش کا حاصل ہے
کہ لحظہ لحظہ اپنے آپ ہی میں مر رہا ہوں میں


اسی نسبت سے بڑھتی جا رہی ہے تشنگی میری
کہ جس سرعت سے جام عمر خالی کر رہا ہوں میں