کچھ اس طرح سے تیرا غم دیئے جلاتا تھا

کچھ اس طرح سے تیرا غم دیئے جلاتا تھا
کہ خاک دل کا ہر اک ذرہ جگمگاتا تھا


اسی لئے نہ کیا تلخی‌ٔ جہاں کا گلا
ترا خیال پس پردہ مسکراتا تھا


نہ یاد رکھتا تھا مجھ کو نہ بھول جاتا تھا
کبھی کبھی وہ مجھے یوں بھی آزماتا تھا


ہر آئنہ تھا سراپا حجاب میرے لیے
میں اپنے آپ کو دیکھوں نظر وہ آتا تھا


نظر چرا کے وہ گزرا قریب سے لیکن
نظر بچا کے مجھے دیکھتا بھی جاتا تھا


غزل کے لہجے میں ہوتی تھی گفتگو اس سے
وضاحتوں میں بھی ابہام رہ ہی جاتا تھا


وہاں بھی سایۂ دیوار اس کا یاد رہا
خود اپنا سایہ جہاں ساتھ چھوڑ جاتا تھا


اداس کمرہ مہکتا تھا کس کی یادوں سے
وہ کون شخص تھا کیا تھا کہاں سے آتا تھا


چمکتے تھے در و دیوار آئنوں کی طرح
ان آئنوں میں کوئی عکس مسکراتا تھا


یہ خواب ہی مری تنہائیوں کا حاصل تھا
یہ خواب ہی مری تنہائیاں بڑھاتا تھا