مری مشکل کا حل نہیں ملتا
مری مشکل کا حل نہیں ملتا
پھول کھلتے ہیں پھل نہیں ملتا
چند روزہ حیات دنیا میں
چین کا ایک پھل نہیں ملتا
جن کے دل میں ہزار شکوے ہیں
ان کے ماتھے پہ بل نہیں ملتا
اور سب کچھ ہے تیری آنکھوں میں
ایک سوز غزل نہیں ملتا
اتفاقاً اگر بچھڑ جائے
آدمی کا بدل نہیں ملتا
میرا اپنا مزاج ہے تابشؔ
راہ لے اپنی چل نہیں ملتا