ہے چمن میں زندگی کی داستاں بکھری ہوئی

ہے چمن میں زندگی کی داستاں بکھری ہوئی
پھول مرجھائے ہوئے اور پتیاں بکھری ہوئی


اک نظر کے سامنے ہے اس نظر کی اوٹ میں
زندگی ہے دو جہاں کے درمیاں بکھری ہوئی


میں سمجھتا ہوں زمیں پر انقلاب آنے کو ہے
آسماں پر ہیں شفق کی سرخیاں بکھری ہوئی


دیکھنے کی چیز تھی کل خواب گاہ ناز میں
حسرتیں سہمی ہوئی انگڑائیاں بکھری ہوئی


اپنی حالت کو جو دیکھا انقلاب آنے کے بعد
دل کے ویرانے میں تھیں خوش فہمیاں بکھری ہوئی


آج تابشؔ پھر یہاں پر بیٹھنے کے شوق میں
جمع کرنی پڑ گئیں تنہائیاں بکھری ہوئی