مری آرزو کی حدود میں یہ فلک نہیں یہ زمیں نہیں
مری آرزو کی حدود میں یہ فلک نہیں یہ زمیں نہیں
مجھے بزم قدس میں دے جگہ جو وہاں نہیں تو کہیں نہیں
ہے جبیں تو اصل میں وہ جبیں کہ جھکے وہاں تو جھکی رہے
ترے آستاں سے جو اٹھ گئی وہ جبیں تو کوئی جبیں نہیں
مرے دل کی نذر قبول کر جو اشارہ ہو تو یہ سر نثار
کہ وفائے عہد کی شرط میں کہیں درج لفظ نہیں نہیں
یہ عرب بھی ہے مرے روبرو یہ عجم بھی ہے مرے سامنے
مری جستجو کو یقین ہے کہیں تجھ سا کوئی حسیں نہیں
ترے کند تیشے سے راہرو یہ چٹان کیسے کٹے بھلا
ترے ہاتھ یخ ترے پاؤں شل ترے دل میں سوز یقیں نہیں
یہ جو بندگی ہے عروجؔ کی تری زندگی سے ہے قیمتی
نہ ہو بندگی تو فضول ہے کوئی وزن اس کا کہیں نہیں