مرے سجدہ ہائے نیاز کو ترے آستاں کی تلاش ہے

مرے سجدہ ہائے نیاز کو ترے آستاں کی تلاش ہے
کسی فرد کی یہ طلب نہیں یہ تو اک جہاں کی تلاش ہے


نئی سرزمیں کی ہے جستجو نئے آسماں کی تلاش ہے
جو مکاں بھی ٹھیک نہ رکھ سکے انہیں لا مکاں کی تلاش ہے


مرے پائے شوق سفر میں ہیں ابھی راہ و رسم کی بندشیں
مجھے نقش پا کی ہے جستجو مجھے کارواں کی تلاش ہے


جو خزاں نصیب ازل کے ہیں انہیں فصل گل کی ہے آرزو
وہ جو تھک چکے ہیں بہار سے انہیں اب خزاں کی تلاش ہے


یہ مرا کمال مصوری یہ مرا شعور صنم گری
ابھی ذوق حسن کثیف ہے اسے جسم و جاں کی تلاش ہے


مری زندگی کا فسانہ کیا جو سناؤں شوق سے آپ کو
کسی مہرباں کی تلاش تھی کسی مہرباں کی تلاش ہے


جو قفس سے چھوٹ کے آئے ہم کسی شاخ نے بھی جگہ نہ دی
ہیں چمن میں آ کے بھی بے نوا ہمیں آشیاں کی تلاش ہے


ابھی قرض ان کی نظر پہ ہے ترے جلوہ ہائے مجاز کا
جو حقیقتوں سے گزر چکے انہیں داستاں کی تلاش ہے


ترے دشمنوں کی صفوں پہ یہ کسی دور میں نہ چمک سکی
تری تیغ ناز کی آج تک سر دوستاں کی تلاش ہے


خس و خار کو بھی جو دئے رضاؔ تر و تازہ رہنے کا حوصلہ
اسی باغباں کی ہے آرزو اسی گلستاں کی تلاش ہے