مرے رقیب سے ہنس کر کلام کرتے ہوئے

مرے رقیب سے ہنس کر کلام کرتے ہوئے
گزر گیا ہے وہ مجھ کو سلام کرتے ہوئے


عجب کہ ڈوبنے والا تو مطمئن ہے مگر
ڈرا ہوا ہے سمندر یہ کام کرتے ہوئے


وہ جس کے سامنے سستے میں رکھ دیا خود کو
الجھ پڑا ہے وہ گاہک بھی دام کرتے ہوئے


مرے وجود پہ قابض ہوا وہ پل بھر میں
نظر کی تیغ سے دل کو غلام کرتے ہوئے


بچے کچھے سے یہ پل بھی گزر ہی جائیں گے
کسی کی یاد میں ساحل پہ شام کرتے ہوئے


قسم خدا کی یہ گریہ نہ دیکھ پاؤں گا
خوشی سے جائیے رشتہ تمام کرتے ہوئے


ذکیؔ یہ پیار ہی پہچان بن گیا میری
میں خاص ہو گیا الفت کو عام کرتے ہوئے