مرا پیام ہے ارباب فکر و فن کے لیے

مرا پیام ہے ارباب فکر و فن کے لیے
کہ من کا خوں نہ کریں ارتقائے تن کے لیے


جہان فکر میں تسبیح بھی ہے تیغ بھی ہے
وہ خود شکن کے لیے ہے یہ صف شکن کے لیے


مری سمجھ میں نہ یزدانیوں کی بات آئی
اک اہرمن سے لڑائی اک اہرمن کے لیے


ترا یہ فلسفۂ ہم وجودیت اے دوست
نہ شیخ کے لیے موزوں نہ برہمن کے لیے


بدل گئی ہے کچھ اس طرح باغباں کی نظر
کہ جیسے میری ضرورت نہیں چمن کے لیے


کہو حرم کے جوانوں سے عرضیاں بھیجیں
کہ خادموں کی ضرورت ہے برہمن کے لیے


ملی ہے مجھ کو اندھیروں سے روشنی فاروقؔ
چراغ ہوں میں زمانے کی انجمن کے لیے