مرا خواب میرا خیال تو ترا ذکر ہے مری گفتگو

مرا خواب میرا خیال تو ترا ذکر ہے مری گفتگو
مرا ہر نفس تری آرزو مرا ہر قدم تری جستجو


مجھے ضد نہیں مگر آ بھی جا بڑا یاس و غم کا ہجوم ہے
ترے درد کی مرے ضبط کی کہیں لٹ نہ جائے یہ آبرو


میں ملامتوں کا شکار بھی مجھے کافری کا خطاب بھی
مری مے کشی کا خمار تو مری بندگی کا شعار تو


یہ کٹھن تو ہے مرے دوستو مجھے معجزوں پہ بھی ہے یقیں
کبھی آئے ایسا بھی ایک دن کہ اسے بھی ہو مری جستجو


نہیں عقل و فہم کی دسترس ہیں عجیب دل کے معاملے
کبھی نکہتوں سے لطیف تر کبھی رسن و دار سے دو بدو


ترا روپ بھی ترا رنگ بھی ترے گیسوؤں کی مہک بھی تھی
کبھی آ گیا ہوں جو دفعتاً میں خود اپنے آپ کے روبرو


یوں ہی ایک ہلکی سی چوٹ سے وہ نہ جانے کیسے بکھر گیا
وہ جو خود کو کہتا تھا آہنی بڑی شعلہ بار تھی گفتگو