مینارِ پاکستان کی کہانی: اس مینار کا قیام پاکستان سے کیا تعلق ہے؟ یہ کب تعمیر ہوا اور کس نے کیا ؟

یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ مینار پاکستان عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں  مارچ 23 مارچ  1940ء کو قرار دادِ پاکستان منظور ہوئی تھی۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ  کب تعمیر ہوا، اس کی تعمیر کی پلاننگ کب اور کیسے شروع ہوئی، اس کا نقشہ کس نے تیار کیا اور اس کی تعمیر میں کن اہم باتوں کو مدِ نظر رکھا گیا گیا ہے۔تو آئیے آج مینار پاکستان کی کہانی کو ایک الگ انداز سے دیکھتے ہیں۔ 

مینارِ پاکستان کے کتنے نام ہیں؟

مینارِ پاکستان کو  ٹاور آف پاکستان (Tower of Pakistan)بھی کہا جاتا ہے۔ نیز اسے ’’پاکستان کا لبرٹی ٹاور‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مینارِ پاکستان کو ابتدا میں یادگارِ پاکستان (قراردادِ پاکستان کی یادگار) بھی کہا جاتا رہا تاہم بعد ازاں اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ اگرچہ اہل لاہور اب بھی اسے "یادگار" ہی کہتے ہیں۔ مینار پاکستان کو پاکستان کی قومی عمارت تصور کیا جاتا ہے۔

مینار پاکستان کب تعمیر کیا گیا؟

مینار پاکستان کا سنگ بنیاد 23 مارچ 1960 کو رکھا گیا تھا۔ اس کی تعمیر میں آٹھ سال کا عرصہ صرف ہوا  اوریہ  21 اکتوبر 1968 کو مکمل ہوا۔  مینار کی تعمیر کے وقت  تک اس جگہ کو "منٹو پارک" کہا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اسے "اقبال پارک" کا نام دے دیا گیا۔ 

مینار پاکستان پر کتنی لاگت آئی؟ 

مینار پاکستان کی  تعمیر پر اس وقت  70 لاکھ 58 ہزار  روپے کی  لاگت آئی۔ ۔ وسائل کی کمی کے باعث گورنر مغربی پاکستان جناب  اختر حسین کی درخواست پر اس کے لیے فنڈز اکٹھے کئے گئے۔ نیز اس کے لیے سینما اور گھڑ دوڑ کے ٹکٹوں پر اضافی ٹیکس لگا کر بھی رقم جمع کی گئی۔

مینار پاکستان کانقشہ ( ڈیزائن) کس نے تیار کیا؟

مینار پاکستان کا ڈیزائن اسلامی اور جدید فن تعمیر کے امتزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اسلامی، مغلیہ اور عصری فن تعمیر کا مرکب ہے ۔اس  کا ڈیزائن  نصرالدین مرات خان  (1904-1970)نے تیار کیا تھا جو کہ ایک روسی نژاد پاکستانی آرکیٹیکٹ اور سول انجینئر تھے۔  وہ اسے اپنا شاہکار ڈیزائن قرار دیتے تھے۔ ان کی معاونت سروسز انجینئر میاں عبدالغنی مغل نے کی جن کے کریڈٹ پر قذافی سٹیڈیم لاہور، سٹی ہسپتال گوجرانوالہ، لارڈز ہوٹل اور یونیورسٹی آف پنجاب کیمپس گوجرانوالہ سمیت پاکستان کی کئی مشہور تعمیرات ہیں۔  جناب مختار مسعود جو کہ ایک نامور مصنف اور اس وقت کے لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے، ٹاور کی تعمیراتی کمیٹی کے اراکین میں سے ایک تھے۔ 

مینار پاکستان کی طرز تعمیر کے چند دلچسپ پہلو

 مینار کی بنیاد زمین سے 8 میٹر اونچی ہے اور مینار کا ڈھانچہ ستارے کی شکل کی بنیاد سے 62 میٹر اوپر بنایا گیا ہے۔ اس طرح یہ  مجموعی طور پر 70 میٹر بلند ہو جاتا ہے۔ اس کا خوبصورت ڈیزائن  اس طرح ہے جیسے پھول کی پنکھڑیاں کھل رہی ہوں۔یہ پنکھڑیاں زمین سے  9 میٹر اونچی ہیں۔  مینارِ پاکستان کا قطر تقریباً 9.75 میٹر ہے۔

مینار پاکستان کی بنیاد کے چند دلچسپ پہلو 

 آٹھ میٹر کی اونچائی کے ساتھ آٹھ میٹر کی بنیاد جس سے آٹھ پھولوں کی پنکھڑیاں نکلتی ہیں، جو اسٹیل کے گنبد اور چوٹی کے ساتھ  اوپر تک  جاتی ہیں۔ ٹاور کی تعمیر میں مختلف قسم کے ماربل اور کنکریٹ کا استعمال کیا گیا ہے اور ایک ذریعے کے مطابق بنیاد پر موٹے سنگ مرمر کا استعمال جدوجہد آزادی کے ابتدائی دنوں کی مشکلات کی یاد دلاتا ہے جبکہ باریک سنگ مرمر کا استعمال حتمی کامیابی اور خوشحالی کے راستے کی  عکاسی کرتا ہے۔ اس مینار کے چار پلیٹ فارم ہیں اور سبھی مختلف قسم کے سنگ مرمر اور پتھروں سے تعمیر کیے گئے ہیں جبکہ ایک لفٹ کے علاوہ 162 سیڑھیاںزائرین  کو یادگار کے سب سے اوپر والے پلیٹ فارم تک لے جاتی ہیں۔

کھلتے پھولوں کی پنکھڑیاں  خوشی اور فراوانی کے علاوہ دولت، خوش قسمتی اور خوشحالی کی علامت ہیں جس کا آزاد ریاست پاکستان نے اپنے باشندوں سے وعدہ کیا تھا۔ پھول بھی پاکیزگی کو ظاہر کرتے ہیں، اور لفظ پاکستان کا لغوی معنی بھی  "پاکوں کی سرزمین" ہے۔ اس ڈھانچے میں ہلالوں اور ستاروں کی تصویر کشی کی گئی ہے یعنی ایسے نشانات جو پاکستان کی ثقافت کی علامت ہیں۔ جس طرح کہ یہ نشان  قومی پرچم میں بھی نظر آتے ہیں۔

 مینار پاکستان پر کیا کندہ (لکھا) ہوا ہے؟

بنیاد پر، سفید سنگ مرمر کی یادگاری تختیوں پر دس متصل پھولوں کے سلیب  ہیں۔ ان سلیبوں پر قرارداد لاہور کا اردو، بنگالی اور انگریزی میں متن کے ساتھ ساتھ دہلی کی قرارداد کا متن بھی شامل ہے، جو 9 اپریل 1946 کو پاس ہوا تھا۔ مختلف تختیوں پر قرآنی آیات اور اللہ کے 99 نام عربی خطاطی میں کندہ ہیں۔ یادگار پر شامل دیگر اہم سلیبوں پر  اردو اور بنگالی میں پاکستان کا قومی ترانہ، قائداعظم محمد علی جناح کی اردو، بنگالی اور انگریزی میں تقریروں کے اقتباسات اور علامہ اقبال کے  چند اشعار بھی شامل ہیں۔ 

مینار پاکستان  پر موجود دیگر اہم یادگاریں

پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے والے حفیظ جالندھری کی آرام گاہ مینار پاکستان کے صحن میں واقع ہے۔ علامہ اقبال کا مقبرہ بھی اقبال پارک میں واقع ہے۔ لاہور کی کچھ اہم ترین تاریخی عمارتیں جیسے بادشاہی مسجد، لاہور قلعہ اور شیش محل اقبال پارک سے ملحق ہیں۔ داخلہ مفت ہے اور پاکستان بھر سے لوگ آزادی پسندوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مینارِ پاکستان آتے ہیں۔

حرفِ  آخر 

مینار پاکستان محض ایک یادگار نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے آزادی کی جدوجہد کے مختلف مراحل کی عکاسی کرتا ہے اور اس کی ساخت میں نوزائیدہ قوم کے شاندار مستقبل کی امید کا اظہار چھلکتا ہے۔ تاریخی قرارداد پاکستان کی یاد میں تعمیر کیا گیا یہ مینار، نوجوان نسل کے لیے ماضی اور حال کے درمیان ایک اہم ربط فراہم کرتا ہے اور کامیابی اور ناممکنات کو عبور کرنے کی امید کی علامت کے طور پر کھڑا ہے۔ نئی نسل  کے لیے شاید یہ محض ایک پکنک پوائنٹ ہو لیکن پاکستان کے کسی بھی محب وطن شہری کے لیے مینار پاکستان  بہت اہمیت کا حامل ہے۔