میری نظر میں اس کی تب و تاب اور ہے

میری نظر میں اس کی تب و تاب اور ہے
کہتے ہیں جس کو گوہر نایاب اور ہے


سرشار جس سے روح ہو وہ گیت ہے جدا
جو تار دل کا چھیڑے وہ مضراب اور ہے


مقصود جو مجھے ہے یہ تعبیر وہ نہیں
جو دیکھتی ہے آنکھ مری خواب اور ہے


کھلتے ہیں جس سے لوگوں پہ اسرار بے خودی
میری کتاب زیست کا وہ باب اور ہے


ہے ذہن زندگی کے مسائل سے منتشر
اور دل کسی کے عشق میں بیتاب اور ہے


اپنی جگہ پہ دونوں ہی خوش رنگ ہیں مگر
طاؤس اور چیز ہے سرخاب اور ہے


یہ وار بھی ہدف سے کہیں دور جا گرا
ترکش میں تیر کیا کوئی نایابؔ اور ہے