میری خزاں تو سبز ہوئی اس خمار میں
میری خزاں تو سبز ہوئی اس خمار میں
آنے کا اس نے وعدہ کیا ہے بہار میں
رکھی ہوئی ہے لاج مری میرے عشق نے
ورنہ تو کیا رکھا ہوا ہے انتظار میں
گھر بھی مجھے تو دشت سا لگتا ہے تیرے بن
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
اب جو سلوک تو کرے یہ ظرف ہے ترا
میں آ گئی ہوں آج ترے اختیار میں
روشن نہ ہو سکی کبھی یہ شام غم مری
میں نے جلائے دیپ کئی اعتبار میں
میری وفا کے ذکر پہ اس کی وہ خامشی
سارے جواب مل گئے اس اختصار میں
دیکھی تو ہوگی راہ مری اس نے بھی کبھی
آیا بھی ہوگا اشک مرے چشم یار میں
دیکھا ہے میں نے معجزہ دلشادؔ ایسا بھی
ہنسنے سے اس کے گل کھلے ہیں کنج خار میں