میرے غم کا اثر ذرا نہ ہوا
میرے غم کا اثر ذرا نہ ہوا
یہ تو پتھر ہوا خدا نہ ہوا
دیکھ لو آج آ کے بسمل کو
کون جانے یہ کل ہوا نہ ہوا
ترک الفت کا ایک ہی غم ہے
یہ ارادہ بھی دیر پا نہ ہوا
ترچھی چتون اتر گئی دل میں
تیر کج تھا مگر خطا نہ ہوا
جذبۂ شوق ہو گیا دشمن
مجھ سے اظہار مدعا نہ ہوا
وقف گردش ہوں صورت پرکار
دور مرکز کا فاصلہ نہ ہوا
لوح ہستی سے کیوں مٹاتے ہو
میں کبھی حرف مدعا نہ ہوا