میرا سایہ بھی اگر باب طرب تک آیا

میرا سایہ بھی اگر باب طرب تک آیا
کہنا بد نام زمانہ تھا نسب تک آیا


دھند ہی دھند تھی ہر سمت پھر اک سمت سے میں
سامنے دکھتا ہوا اپنے عقب تک آیا


بد نصیبی میں یہی بات بری ہے یہی بات
کوئی بھی زہر نہیں میری طلب تک آیا


ہاتھ آئی ہوئی اک موج فنا پھیل گئی
جب کوئی جھونکا ترے جان بہ لب تک آیا


شرم سے بھیگی ہوئی پوروں میں اٹکا ہوا جھوٹ
کبھی پیشانی تک آیا کبھی لب تک آیا