میسر عشق میں صبر و قرار دل نہیں ہوتا

میسر عشق میں صبر و قرار دل نہیں ہوتا
جہاں طوفان ہوتا ہے وہاں ساحل نہیں ہوتا


اگر کوشش نہ کی جائے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا
کہ بے سعیٔ عمل تعمیر مستقبل نہیں ہوتا


نہیں ہوتا جسے احساس اوروں کی مصیبت کا
وہ اک پتھر تو ہو سکتا ہے لیکن دل نہیں ہوتا


حدیں میرے جنون شوق کی ہیں کس قدر آگے
سر منزل پہنچ کر بھی سر منزل نہیں ہوتا


تمہاری جلوہ آرائی سے رنگینی ہے دنیا میں
نہ ہوتے تم تو یہ ہنگامۂ محفل نہیں ہوتا


ارادہ ہو تو کوئی بات نا ممکن نہیں رہتی
بھروسا ہو تو کوئی کام بھی مشکل نہیں ہوتا


نظر اس کی مآل زندگی جس کو نظر آئے
سمجھ اس کی ہے جو انجام سے غافل نہیں ہوتا


صداقت کا زمانے میں ہمیشہ بول بالا ہے
جو حق پر ہوں انہیں اندیشۂ باطل نہیں ہوتا


نہ کھل جائے کہیں راز محبت دیکھ اے شنکرؔ
ہجوم یاس میں کچھ اعتبار دل نہیں ہوتا