موت کو تھامیں گے صدمے میں نہیں آئیں گے

موت کو تھامیں گے صدمے میں نہیں آئیں گے
زندگی ہم تیرے حصے میں نہیں آئیں گے


ہم کو تفتیش کا حق ہے وہ کریں گے پوری
اب کے ہم آپ کے جھانسے میں نہیں آئیں گے


ہم بکھرتے ہوئے موتی ہیں ہمیں مت چنئے
ہم کبھی وقت کے دھاگے میں نہیں آئیں گے


ہم کو کیا آپ کو دعویٰ ہے خدائی کا اگر
ہم کبھی آپ کے کہنے میں نہیں آئیں گے


ہم بڑے شہر کے باسی بھی ہیں مغرور بھی ہیں
ہم کبھی آپ کے قصبے میں نہیں آئیں گے


اشک بن کے تری پلکوں پہ سجیں گے لیکن


عکس بن کے ترے چشمے میں نہیں آئیں گے


ہم گزارے ہوئے لمحوں میں ٹھہر جائیں گے
ہم گزرتے ہوئے لمحے میں نہیں آئیں گے


رات کو لوٹتے پھرتے ہیں جو لوگوں کا سکوں
وہ کبھی دن کے اجالے میں نہیں آئیں گے


ہم سا تم کوئی بنا پاؤ یہ ممکن ہی نہیں
ہم کسی بخت کے سانچے میں نہیں آئیں گے


ہم کہ وہ خستہ مکان ہیں جو گرا چاہتے ہیں
ہم ترے شہر کے نقشے میں نہیں آئیں گے


یہ جو افلاک کے آنسو ہیں دکھاوے کے ہیں بس
ہم تو بارش کے برسنے میں نہیں آئیں گے


زندگی تو نے وفا کی نہ نبھائی جن سے
وہ کبھی تیرے بھروسے میں نہیں آئیں گے