چہروں پہ لکھے لوگوں کے صدمے پڑھا کرو

چہروں پہ لکھے لوگوں کے صدمے پڑھا کرو
قبروں پہ لکھے مردوں کے کتبے پڑھا کرو


رکھتے ہیں کیا وہ بستوں میں بستے پڑھا کرو
لکھتے ہیں کیا وہ پرچوں میں پرچے پڑھا کرو


معلوم تو ہو مٹی کہ دلدل تھی پاؤں میں
جو ہو سکے تو بوٹوں کے تسمے پڑھا کرو


دکھ دینے کا جو سوچو کسی بھی عزیز کو
تو پھر قریب سے سبھی رشتے پڑھا کرو


یہ نہ سنو کہ کیا کیا وہ کہتے رہے تمہیں
جو ہو سکے تو لوگوں کے لہجے پڑھا کرو


چڑھتے ہیں لوگ پھانسی پہ کس جرم کے تحت
تختی تو پڑھ ہی لیتے ہو تختے پڑھا کرو


جب بازی ہارنے لگو تو غور سے ذرا
شطرنج پہ بچھے ہوئے مہرے پڑھا کرو


سوچو کبھی طلاق کا تو اس سے بیشتر
شادی پہ لکھے بیٹوں کے سہرے پڑھا کرو


آنکھیں پڑھو کہ ان میں یہ پانی ہے کس لئے
میں نے یہ کب کہا ہے کہ چہرے پڑھا کرو