میں تم کو جو مل جاتی یوں رب نے کیا ہوتا

میں تم کو جو مل جاتی یوں رب نے کیا ہوتا
تم مجھ کو جو مل جاتے کیا اس کا گیا ہوتا


زخموں کو مرے دل کے کچھ ایسے سیا ہوتا
''وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا''


ٹھوکر تو میں کھاتی پر گرتی نہ کبھی لیکن
پتھر سا کبھی تو جو رستے میں پڑا ہوتا


ہم بھائی تو ہیں لیکن گھر دونوں کے چھوٹے ہیں
اک گھر میں ہی رہ لیتے جو تھوڑا بڑا ہوتا


گل ان پہ کھلے تھے جو مرجھا گئے وہ سارے
اک پیڑ ہی وادی میں اے کاش ہرا ہوتا


اک موڑ پہ ملنا تھا ہم دونوں کو آخر تو
کیا تیرا بگڑ جاتا وعدہ جو وفا ہوتا


کیوں مجھ سے بچھڑنے کی جلدی تھی تمہیں اتنی
تم دل میں رہے ہوتے دل غم سے رہا ہوتا


جن ہونٹوں سے کھلتی تھیں کلیاں کئی لفظوں کی
ان ہونٹوں کی جنبش سے اک نام لیا ہوتا


میں گرنے ہی کیوں پاتی کیوں دلدل میں مصائب کی
جو آ کے کبھی مجھ کو بس تھام لیا ہوتا


میں لوٹ کے آئی تو گھر کا وہی آنگن تھا
حسرت ہی رہی دل میں کچھ گھر میں نیا ہوتا