موت کے اس طرف
موت کے اس طرف
کوئی سر نہاں ہے کہ بازار ہے
کیا ستاروں کا تاباں کوئی قافلہ
یا بلند اور تاریک دیوار ہے
خاک اڑتی ہے یا خوشبوئیں ہیں رواں
کوئی صحرا ہے یا اک چمن زار ہے
کوئی اپنا بھی ہے
یا ہجوم بلا شہر اغیار ہے
کوئی زندہ بھی ہے
یا کہ ہر سمت نعشوں کا انبار ہے
اک خلا ہے کہ پھر
بار امکان ہے
راہ پر خار ہے
جنگ ہے امن ہے
فیصلہ ہے وہاں
جیت ہے ہار ہے
موت کے اس طرف
کچھ نہیں ہے تو کیوں
سر پہ آویزاں وحشت کی تلوار ہے
میں ہوں یا
نقطۂ بے اماں
جسم کے دائرے میں گرفتار ہے
تو ہے یا
آئنہ ساز
والعصر کا
محو دیدار ہے