مرا خط

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
میں انجانے پتے پر ایک خط لکھ کر
سپرد ڈاک کرتی ہوں
جو دل میں معاملات دل ہیں سب
صد چاک کرتی ہوں
میں لکھ دیتی ہوں ان کے نام بھی جن سے شکایت ہے
بتا دیتی ہوں کس کس سے مجھے کتنی محبت ہے
تعارف ان کا بھی جن سے بہت نقصان پہنچا ہے
جنہیں پانے کو صحرا تک دل ویران پہنچا ہے
رقم کرتی ہوں کس کا دل دکھا ہے واقعی مجھ سے
بیاں کرتی ہوں کیوں روٹھی رہی ہے زندگی مجھ سے
غلطیاں ہیں جو میری سب سر اوراق رکھتی ہوں
اور ہر صفحے پہ اپنے دستخط مصداق رکھتی ہوں
مگر ایسا بھی ہوتا ہے
کوئی دستک سی ہوتی ہے
نہ جانے درمیان شب یہاں پر کون آتا ہے
مری دہلیز پر آ کر مرا خط ڈال جاتا ہے