موت کے جھولے سے باہر آ گئی
موت کے جھولے سے باہر آ گئی
میں کسی رشتے سے باہر آ گئی
رفتہ رفتہ درد دل گھٹتا گیا
لاش خود ملبے سے باہر آ گئی
موت کے کس کر گلے ہم کیا لگے
زندگی خطرے سے باہر آ گئی
لب چھپاتے ہی رہے سب سے جسے
بات وہ لہجے سے باہر آ گئی
اوڑھ کر بیٹھے تھے ہم سنجیدگی
پر ہنسی دھوکے سے باہر آ گئی
دیکھنے والے تماشا بن گئے
داستاں پردے سے باہر آ گئی
میرے حصے میں تھی دنیا اور میں
اپنے ہی حصے سے باہر آ گئی
بس وہ مجھ کو قید کرنے والا تھا
اور میں سپنے سے باہر آ گئی