موت جب تک نظر نہیں آتی

موت جب تک نظر نہیں آتی
زندگی راہ پر نہیں آتی


ترک تدبیر بھی نہیں آساں
راس تدبیر اگر نہیں آتی


مرکز دل پہ جو نہیں قائم
وہ نظر راہ پر نہیں آتی


دل کو لذت شناس غم کر لیں
موت ہم کو اگر نہیں آتی


جس نے تیری نظر کو دیکھ لیا
اس کو دنیا نظر نہیں آتی


وہ کبھی مہربان ہو جاتا
ایسی صورت نظر نہیں آتی


جیتے جی کے ہیں سارے ہنگامے
مر کے پھر کچھ خبر نہیں آتی


آہ کیا ہو گیا زمانے کو
اب مروت نظر نہیں آتی


ہے انہیں تو وقار عجز و نیاز
وہ تمنا جو بر نہیں آتی


زندگی سے نباہے جائیں گے
موت جب تک نظر نہیں آتی


اشک پیہم جگرؔ نہیں تھمتے
راہ پر چشم تر نہیں آتی