موج در موج ہواؤں سے بچا لاؤں گا
موج در موج ہواؤں سے بچا لاؤں گا
خود کو میں دشت کے پنجوں سے چھڑا لاؤں گا
حوصلہ رکھئے میں صحرا سے پلٹ آؤں گا
ذرے ذرے سے محبت کا پتہ لاؤں گا
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں جو ہیں الجھے ہوئے
ان ہی گیسو کے لیے پھول بچا لاؤں گا
تیرے ماتھے پہ چمکتے ہوئے رنگوں کی قسم
ترے ہونٹوں پہ ترنم کی صدا لاؤں گا
میں جو پابند وفا ہوں تو وفا زندہ ہے
میں اسی طرز ریاضت کا صلہ لاؤں گا
موسم خشک ہوا تیز مگر وعدہ رہا
سرخ پھولوں کے لیے نام وفا لاؤں گا
شب کی تنہائی میں آنکھوں سے لہو ٹپکے گا
ایسے عالمؔ کی میں تصویر بنا لاؤں گا