متاع فکر نشاط عمل فروغ حیات

متاع فکر نشاط عمل فروغ حیات
تمہارا درد تمہاری یہ آخری سوغات


حریف سارا زمانہ رقیب سارا جہاں
چرا نہ لے کوئی ڈرتا ہوں اس کا رنگ ثبات


کہاں چھپاؤں اسے کس طرح بچاؤں اسے
چراغ ایک ہوا تیز اور اندھیری رات


فراغ جسم کا دل کا سکوں نظر کا قرار
تمہارے درد کے دشمن ہیں یہ سبھی حالات


میں اس مقام پہ پہنچا ہوں ان دنوں کہ جہاں
نہ کاہش غم دوراں نہ کاوش غم ذات


بس اک خلش کے سوا ایک آرزو کے سوا
عجیب شہر خموشاں ہے شہر احساسات


تمہی بتاؤ کہ ایسے میں اک تمہارے سوا
کہوں تو کس سے کہوں اب تمہارے درد کی بات