مشیت کس کے بس میں فضا سے کون لڑتا ہے
مشیت کس کے بس میں فضا سے کون لڑتا ہے
یہاں جو سر اٹھاتا ہے اسے جھکنا ہی پڑتا ہے
چلا ہوں دیر سے سوئے حرم لیکن یہ عالم ہے
کہ جیسے کوئی رہ رہ کر مرا دامن پکڑتا ہے
حقیقت سے بغاوت الجھنوں میں ڈال دیتی ہے
یہ سودا لاکھ سستا ہو مگر مہنگا ہی پڑتا ہے
جناب شیخ نے پردہ اٹھایا اس حقیقت سے
کہ اک عالم بگڑتا ہے تو اک عالم بگڑتا ہے
نشیمن لٹ چکا رد عمل کا انتظار اب ہے
بھلا گھر دیکھیے صیاد کا کب تک اجڑتا ہے
یقیں کی آگ میں تپتی ہے جب روح خودی برسوں
کہیں تب جا کے شعلہ پھول کی صورت پکڑتا ہے
کہیں ٹھوکر نہ کھا جانا کہ منہ پر آنکھ رکھتے ہو
حرم کی راہ میں فاروقؔ بت خانہ بھی پڑتا ہے