مرکز میں تھا سو دھیان میں رکھا گیا مجھے
مرکز میں تھا سو دھیان میں رکھا گیا مجھے
ہر وقت امتحان میں رکھا گیا مجھے
اس کے سوا نہیں ہے مسیحا مرا کوئی
اک عمر اس گمان میں رکھا گیا مجھے
اطراف میرے کھینچا گیا خوف کا حصار
ڈہتے ہوئے مکان میں رکھا گیا مجھے
میری زباں سے قوت گویائی چھین کر
گونگوں کی داستان میں رکھا گیا مجھے
جوہر شناس نظروں سے اوجھل نہیں تھا میں
کیوں کوئلے کی کان میں رکھا گیا مجھے
پہرے بٹھا دیے گئے ہر بات پر مری
دانتوں تلے زبان میں رکھا گیا مجھے
اچھا مذاق ہے یہ مری سادگی کے ساتھ
فیشن زدہ دکان میں رکھا گیا مجھے
کرنا ہی تھا سپرد جو قاتل کو ایک دن
اس درجہ کیوں امان میں رکھا گیا مجھے
چاروں طرف سے مجھ پہ زمیں تنگ کی گئی
کہنے کو آسمان میں رکھا گیا مجھے
تلوار کا سوال یہی جنگجو سے تھا
کیوں آج تک میان میں رکھا گیا مجھے
حرکت پہ ہے جمود تو اظہار پر سکوت
نایابؔ کس جہان میں رکھا گیا مجھے