مقام و آب ہوئے ساتھ ساتھ شرمندہ
مقام و آب ہوئے ساتھ ساتھ شرمندہ
ہے کربلا جو پشیماں فرات شرمندہ
لہو میں ڈوب کے مظلوم سرخ رو نکلے
صلیب وقت پہ ظالم کی ذات شرمندہ
جب اک جہت سے چلا تیر ننھے بچے پر
اس ایک پل میں ہوئے شش جہات شرمندہ
کہاں ہے شمر کو توفیق شرمساری کی
مگر ہے خنجر قاتل کی دھات شرمندہ
گریں جو کٹ کے وہی سر بلند ہیں بازو
جو تیر مشک پہ کھینچیں وہ ہاتھ شرمندہ
لہو لہان شہیدوں سے شرمسار وہ دن
وہ بیبیوں کے کھلے سر کی رات شرمندہ
ہیں سر جھکائے ہوئے لفظ لفظ نوحوں کے
بیان مرثیہ کی بات بات شرمندہ
یزید و شمر و عمرو اور بن زیاد کہاں
سوائے حر کے ہوئی سب کی ذات شرمندہ
فنا کے آخری لمحے تلک حسین مرے
رہے گی غم میں ترے کائنات شرمندہ