مجبور ہوں آہ کر رہا ہوں

مجبور ہوں آہ کر رہا ہوں
نادم ہوں گناہ کر رہا ہوں


پھولوں کی تلاش ہے نظر کو
کانٹوں پہ نگاہ کر رہا ہوں


اے برق ٹھہر کہ اپنا گلشن
میں خود ہی تباہ کر رہا ہوں


بس ایک تری خوشی کی خاطر
ہر غم سے نباہ کر رہا ہوں


اس کی نظر اپنی سمت پا کر
ہر سمت نگاہ کر رہا ہوں


منزل کا تو کچھ پتا نہیں ہے
سجدے سر راہ کر رہا ہوں


کس چیز کی جستجو ہے دانشؔ
ہر شے پہ نگاہ کر رہا ہوں