میں وہ سکوت سماعت کا ہوں
میں وہ سکوت سماعت کا ہوں
ہر پل کی آہٹ سنتا ہوں
خود کو دیکھ کے سوچ رہا ہوں
ویسا کب ہوں میں جیسا ہوں
جلتے ہوئے سورج کے نیچے
میں اپنے سائے میں کھڑا ہوں
کیا قربت کیا دوری ہر پل
جی بھی رہا ہوں مر بھی رہا ہوں
مجھ سا کوئی خوش فہم نہ ہوگا
بید کی شاخوں سے پھل چاہوں
عمر ڈھلی تکمیل میں لیکن
جیسا تھا اب تک ویسا ہوں
ہر امکاں مانند گماں ہے
دریا ہوں یا اک صحرا ہوں
ہستی کے اس آئینے میں
تو میرا میں عکس ترا ہوں
یہ دن رات مرا پرتو ہیں
ڈوب رہا ہوں ابھر رہا ہوں