میں اسے تجھ سے ملا دیتا مگر دل میرے
میں اسے تجھ سے ملا دیتا مگر دل میرے
میرے کچھ کام نہیں آئے وسائل میرے
وہ جنوں خیز مسافت تھی کہ دیکھا ہی نہیں
عمر بھر پاؤں سے لپٹی رہی منزل میرے
تو ملا ہے تو نکل آئے ہیں دشمن سارے
وقت کس کس کو اٹھا لایا مقابل میرے
ابر گریہ نے وہ طوفان اٹھائے اب کے
میرے دریاؤں کو کم پڑ گئے ساحل میرے
جتنا حل کرتا ہوں اتنا ہی بگڑ جاتے ہیں
تو نہیں جانتا اے دوست مسائل میرے
عشق میں ہار کے معنی ہی بدل جاتے ہیں
تجھ کو معلوم نہیں ہے ابھی قاتل میرے
بے انت سفر میرا مقدر ہے سلیمؔ
مجھ میں طے کرتا ہے یہ کون مراحل میرے