میں سناؤں کسے حیات کا دکھ
میں سناؤں کسے حیات کا دکھ
میرے اندر ہے کائنات کا دکھ
وصل میں دن گزارنے والے
ہجر میں مجھ سے پوچھ رات کا دکھ
کون ہوں کیا ہوں کس لئے ہوں میں
مجھ کو کتنا ہے اپنی ذات کا دکھ
تلخ لہجہ کبھی گراں لہجہ
میں نے جھیلا ہے بات بات کا دکھ
غل ہے بستی میں مر گیا رضوانؔ
اب مناؤ میری وفات کا دکھ