میں نے سوچا ہی نہیں مر کے کدھر جاؤں گا
میں نے سوچا ہی نہیں مر کے کدھر جاؤں گا
میں تو مانند صبا یاں سے گزر جاؤں گا
سیر گلشن کا یہ انجام کہاں سوچا تھا
لے کے اس بزم سے اک زخم جگر جاؤں گا
جب سے مانوس ترے غم سے ہوا ہوں اے دوست
ایسا لگتا ہے کہ ہر غم سے گزر جاؤں گا
حسن کی آنچ نہ دو عشق زدہ دل کو مرے
نقش پوشیدہ کی مانند ابھر جاؤں گا
یہ نہ بھولیں مری ہستی کو مٹانے والے
میری فطرت ہے سنورنا میں سنور جاؤں گا