میں کیا بتاؤں تجھ کو مری جان رہ گئے

میں کیا بتاؤں تجھ کو مری جان رہ گئے
یہ نبض تھم گئی مگر ارمان رہ گئے


اس موسم فسردہ نگاہی کے ہی سبب
پھولوں کے منتظر مرے گلدان رہ گئے


چشم غزال دشت تمنا کو دیکھ کر
دیدہ وران شہر بھی حیران رہ گئے


ایسی ہوائے وحشت آوارگاں چلی
شہزادیوں کے جھیل پہ سامان رہ گئے


مجھ سے گلہ فضول ہے جب خود ہی آپ کو
عہد وفا نہ یاد نہ پیمان رہ گئے


ہم سرخ ہونٹ والی زلیخا کے عشق میں
کافر ہی ہو سکے نہ مسلمان رہ گئے