میں ان حسین نظاروں کے پاس آ نہ سکا

میں ان حسین نظاروں کے پاس آ نہ سکا
خزاں نصیب بہاروں کے پاس آ نہ سکا


رہا فلک پہ ستاروں میں جلوہ گر مہتاب
وہ اپنے سینہ فگاروں کے پاس آ نہ سکا


تمام عمر رہا ہمکنار موجوں سے
سفینہ اپنا کناروں کے پاس آ نہ سکا


گدائے عشق کی دولت تھی فقہ و استغنا
وہ مال و زر کے سہاروں کے پاس آ نہ سکا


جہاں میں عام غم روزگار تھا نیرؔ
مگر وہ عشق کے ماروں کے پاس آ نہ سکا