دل و نظر کے لئے لطف ناگہاں بن کر
دل و نظر کے لئے لطف ناگہاں بن کر
جوانی آئی تھی اک خواب رائیگاں بن کر
وہ شاخ گل ہمیں اکثر قفس میں یاد آئی
جو نذر برق ہوئی سقف آشیاں بن کر
وہ گیت مطرب آتش نوا سنا مجھ کو
جو آ سکے لب عشاق پر فغاں بن کر
جو آج تک کسی اسلوب سے بیاں نہ ہوا
وہ راز آج کھلا ان کی داستاں بن کر
نہ رہنما ہے نہ منزل نہ راہ اے نیرؔ
یہ لوگ چل دئے کس سمت کارواں بن کر